مجھے تم سب سے نفرت ہے

ارے او قاتلو!
تم پر خدا کا رحم
جو تم نے
جہانِ دل کے سب کوچے، محلّے
سب گلی چوبارے تک ویران کر ڈالے
گُلستانِ تبسّم روند ڈالے
شہرِ جاں کی سب فصیلیں ڈھا کے
قبرستان کر ڈالیں
تم اپنی ذات میں خود ہی خداوندان و پیغمبر
تمہاری گفتنی و کردنی جو سب
بزعمِ خُود تھی یزدانی
جنہیں میں خِضر سمجھا تھا
وہی شدّاد نکلے ہیں
میں جن کی ذات کا حصّہ
وہی بد ذات نکلے ہیں
تمھاری فتح میں تسلیم کر لوں گا
اگر تم
یہ شکستِ دل، شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
مگر اب تک ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
علَم اِک قرمزی جو اِک علامت ہے
محبّت جاوِدانی کے جلال و فتحمندی کی
وہیں
اِک اور بھی
اتنا ہی اونچا اور قد آور علَم بھی ایستادہ ہے
مگر اُس سُرخ جھنڈے سے سیہ رنگت جھلکتی ہے
مگر بس فرق اتنا ہے
کہ اُس کے روئیں روئیں سے فقط نفرت چھلکتی ہے
وہی نفرت علامت ہے
مِرے تم سے تعلّق کی
تمہارے میرے رشتے کی
مگر دُکھ کیا؟
ابھی الفاظ باقی ہیں
قلم کا ساتھ باقی ہے
مگر جب تک مِرے سینے میں اِک بھی سانس باقی ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے

Posted on Feb 16, 2011