شام کے بعد

شام کے بعد

تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد

اتنے چپ چاپ کے راستے بھی رہینگے لا علم
چھوڑ جائینگے کسی روز نگر شام کے بعد

میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
جیسے طوفان میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد

شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
جس کے ہاتھوں میں تھے ٹوٹے ہوئے پر شام کے بعد

رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد

تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اُتَر شام کے بعد

لوٹ آئے نا کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پے در شام کے بعد

Posted on Feb 16, 2011