وہ رستے ہمیں پھر یاد آنے لگے

وہ رستے ہمیں پھر یاد آنے لگے

وہ رستے ہمیں پھر یاد آنے لگے
جن رستوں سے تھے ہم کترانے لگے

وہ رستہ جو جاتا تھا محبوب کے گھر
پھر یادوں کے ستارے وہاں جھلملانے لگے

بھلا بیٹھا تھا بیتے وقتوں کی سبھی باتیں
وہ نٹ کھٹ ادائیں اور دکھاوے یاد آنے لگے

قسمت میں جو ہماری ملنا نہیں لکھا
ذہن و دل میں پھر وہ کیوں سمانے لگے

محبوب اس جیسا ہمیں مل نہیں سکتا
ہمیں جدا کر کے کیوں لوگے پچھتانے لگے

کشش ان کی آنکھوں میں بلا کی حیا
نظروں کے تیر کے سامنے قاتل تیر شرمانے لگے

Posted on Feb 16, 2011