یوں دل نا لگے نا درد اٹھے

یوں دل نا لگے نا درد اٹھے

یوں دل نا لگے نا درد اٹھے ، مت روز ملو تو اچھا ہے ،
نا پیار بڑھے نا جھگڑا ہو ، تم دور بسو تو اچھا ہے ،

کسی پھول سے ملتے چہرے کو میری دنیا دیکھنا چاہے گی ،
جو پاس تمھارے کچھ بھی نہیں ، پردے میں رہو تو اچھا ہے ،

اس پیار کی سُندر بانہوں میں ، اب بانہیں ڈال کے سو بھی چکو ،
یوں جی ، جی کے اب مرنے سے ، مر مر کے جیو تو اچھا ہے ،

لے کر زنجیریں ہاتھوں میں ، کچھ لوگ تمھاری تاک میں ہیں ،
اے عشق ہماری گلیوں میں نا اور پھرو تو اچھا ہے . . .

Posted on Feb 16, 2011