آج گم سم ہے جو برباد جزیروں جیسی

آج گم سم ہے جو برباد جزیروں جیسی ،
اس کی آنکھوں میں چمک تھی کبھی ہیروں جیسی

کتنے مغرور پہاڑوں کے بدن چاک ہوئے ،
تیز کرنوں کی جو بارش ہوئی تیروں جیسی

جس کی یادوں سے خیالوں کے خزانے دیکھے ،
اسکی صورت بھی لگی آج فقیروں جیسی

چاہتیں لب پہ مچلتی ہوئی لڑکی کی طرح ،
حسرتیں آنکھ میں زندان کے اسیروں جیسی

ہم انا مست ، تھا دست بہت ہیں محسن ،
یہ الگ بات کے عادت ہے امیروں جیسی . . . !

Posted on Apr 06, 2012