ابھی وقت ہے مجھے چھوڑ جا ،
ابھی مصلحت کا مقام ہے
ابھی قافلوں کا قیام ہے
ابھی دسترس میں ہے زندگی
ابھی چشم نم مین ہے روشنی
ابھی نقش پا کو ثبات ہے
ابھی کچھ ہی دیر کی بات ہے
ابھی وقت ہے مجھے چھوڑ جا ،
ابھی گرد راہ سے اڑی نہیں
ابھی کرچیوں میں باتیں نہیں
ابھی ہر نظارہ حسین ہے
ابھی صبح نو کا یقین ہے
ابھی ہم کناروں پہ ہیں کھڑے
ابھی وقت ہے مجھے چھوڑ جا ،
یہ سفر نہیں عذاب ہے
یہاں ہر قدم پہ سراب ہے
یہاں بد گمانی کا راج ہے
یہاں بے وفائی رواج ہے
ابھی ہوش کھونے کے دن نہیں
ابھی تیرے رونے کے دن نہیں
ابھی وقت ہے مجھے چھوڑ جا ،
ابھی ساری نگری اندھیر ہے
ابھی دن نکلنے میں دیر ہے
ابھی بہر عشق میں نا اُتَر
ابھی شہر سارا ہے بے خبر
ابھی وقت ہے مجھے چھوڑ جا ،
Posted on Jul 15, 2011
سماجی رابطہ