اچھا نہیں کیا
اسنے مجھے بھلا دیا اچھا نہیں کیا
پیار کا یہ صلہ دیا اچھا نہیں کیا
پھول سے خوشبو جدا نہیں ہوتی
پھول شاخ سے جدا کیا اچھا نہیں کیا
خزاں کو برا مت کہو نوید بہار ہے
چمن سے بلبل اڑا دیا اچھا نہیں کیا
بجلیاں گر رہی تھی میرے آشیانے پر
ستم اس نے روا کیا اچھا نہیں کیا
ترستا رہا میں ایک گھونٹ کے لیے
غیر کو ساغر پلا دیا اچھا نہیں کیا
وہ چلتا میرے ساتھ کچھ دور ہی سہی
عہد وفا بھلا دیا اچھا نہیں کیا
فضا میں اب تک اسکی مہک باقی ہے
شام سے پہلے چلا گیا اچھا نہیں کیا
دل کو سمجھاؤ اَطْہَر دھڑکا نا کرے
دل کو پاگل بنا گیا اچھا نہیں کیا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ