اچھے نہیں لگتے

اچھے نہیں لگتے

کبھی صحرا کبھی سوکھے شجر اچھے نہیں لگتے

مجھے اب خوابزاروں کے سفر اچھے نہیں لگتے

جوابی خط میں یوں اسنے میرے بارے میں لکھا تھا

برا بھی کہہ نہیں سکتے مگر اچھے نہیں لگتے

نہیں مصروف میں اتنا کے گھر کا رستہ بھولوں

کوئی جب منتظر نا ہو تو گھر اچھے نہیں لگتے

سمندر تیرتی لہروں سے یہ کہتا رہا شب بھر

مجھے بھی ڈوبنے والے بھنور اچھے نہیں لگتے

نہیں ایسا کے اب پرواز کی طاقت نہیں باقی

میری امید کے پنچھی کو پر اچھے نہیں لگتے

Posted on Feb 16, 2011