ادھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے

یہ وصل کا لمحہ ہے اسے رائیگاں نا سمجھ
کے اس کے بعد وہی دوریوں کا سہارا ہے

کچھ اور دیر نا جھڑتا اداسیوں کا شجر
کسے خبر تیرے سائے میں کون بیٹھا ہے

یہ رکھ - رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے

میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجھکتی ہے
تیرا بدن ہے کے یہ آئینوں کا دریا ہے

Posted on Jun 24, 2011

ادھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے

یہ وصل کا لمحہ ہے اسے رائیگاں نا سمجھ
کے اس کے بعد وہی دوریوں کا سہارا ہے

کچھ اور دیر نا جھڑتا اداسیوں کا شجر
کسے خبر تیرے سائے میں کون بیٹھا ہے

یہ رکھ - رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے

میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجھکتی ہے
تیرا بدن ہے کے یہ آئینوں کا دریا ہے

Posted on Jun 24, 2011