اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
مگر تیرے بعد حوصلہ ہے کے جی رہا ہوں
وہ ریزہ ریزہ میرے بدن میں اُتَر رہا ہے
میں قطرہ قطرہ اسی کی آنکھ کو پی رہا ہوں
تیری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
مجھے تو لگتا ہے میں تیرا دوست بھی رہا ہوں
کھلی ہیں آنکھیں مگر بدن ہے تمام پتھر
کوئی بتائے میں مر چکا ہوں کے جی رہا ہوں
کہاں ملے گی مثال میری ستمگری کی ؟
کے میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
نا پوچھ مجھ سے کے شہر والوں کا حال کیا تھا
کے میں تو خود اپنے گھر میں دو گھڑی رہا ہوں
ملا تو بیتے دنوں کا سچ اسکی آنکھ میں تھا
وہ آشْنا جس سے مدتوں اجنبی رہا ہوں
بھلا دے مجھ کو کے بیوفائی بجا ہے لیکن
گنوا نا مجھ کو کے میں تیری زندگی رہا ہوں
وہ اجنبی بن کے اب ملے بھی تو کیا ہے محسن
یہ ناز کم ہے کے میں بھی اس کا کبھی رہا ہوں
گرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں
Posted on Jun 20, 2011
سماجی رابطہ