آنکھیں بھی وہی ہیں دریچہ بھی وہی ہے
اور سوچ کے آنگن میں اترتا بھی وہی ہے
جس نے میرے جزبوں کی صداقت کو نا جانا
اب میری رفاقت کو ترستا بھی وہی ہے
اس دل کے خرابے سے گزر کس کا ہوا ہے
آنکھیں بھی وہی ہیں ہونٹ بھی وہی ہے لہجہ بھی وہی ہے
جو کچھ بھی کہا تھا میری تنہائی نے تجھ سے
اس شہر کی دیوار پے لکھا بھی وہی ہے
وہ جس نے دیا مجھ کو محبت کے خزانے
بدل کی طرح آنکھ سے برسا بھی وہی ہے
Posted on Aug 11, 2011
سماجی رابطہ