بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا

بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا

سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا

وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اُتَر کیوں نہیں جاتا

میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ
جاتے ہے جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا

وہ نام جو برسوں سے سمایا ہے ذہن میں
وہ خواب اگر ہے تو بکھر کیوں نہیں جاتا

Posted on Aug 03, 2011