چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ
کے کتنی شامیں اداس آنکھوں میں کاٹنی ہیں
کے کتنی صبحیں اکیلے پن میں گزارنی ہیں
بتا کے جاؤ کہ کتنے سورج عذاب راستوں کو دیکھنا ہے
کے کتنے مہتاب سرد راتوں کی وسعتوں سے نکالنے ہیں
بتا کے جاؤ کہ چاند راتوں میں وقت کیسے گزارنا ہے
خاموش لمحوں میں تجھ کو کتنا پکارنا ہے
بتا کے جاؤ کہ کتنے لمحے شمار کرنے ہیں ہجر راتوں کے
کہ کتنے موسم ایک ایک کر کے جدائیوں میں گزارنے ہیں
بتا کے جاؤ کے پنچھیوں نے اکیلے پن کا سبب جو پوچھا
تو کیا کہوں گا ؟ ؟ ؟
بتا کے جاؤ . . میں کس سے تیرا گلہ کروں گا
بچھڑ کے تجھ سے حبیب . . کس سے ملا کروں گا
بتا کے جاؤ کہ آنکھ برسی تو کون موتی چنا کرے گا
اداس لمحوں میں دل کی دھڑکن سنا کرے گا
بتا کے جاؤ کہ موسموں کو پیام دینے ہیں یا نہیں
فلک کو ، تاروں کو ، جگنوؤں کو سلام دینے ہیں یا نہیں
بتا کے جاؤ کہ کس پہ ہے اعتبار کرنا
تو کس کی باتوں پہ بےنیازی کے سلسلے اختیار کرنا
بتا کے جاؤ کہ اب رویوں کی چال کیا ہو
جواب کیا ہو ، سوال کیا ہو
عروج کیا ہو ، زوال کیا ہو
نگاہ ، رخسار ، زلف ، چہرہ . . نڈھال کیا ہو
بتا کے جاؤ کہ میری حالت پہ چاندنی کھلکھلا پڑی تو
میں کیا کروں گا
بتا کے جاؤ کہ میری صورت پہ تیرگی مسکرا پڑی تو
میں کیا کروں گا
بتا کے جاؤ کہ تم کو کتنا پکارنا ہے
بچھڑ کے تجھ سے یہ وقت کیسے گزارنا ہے
اجاڑنا ہے ؟ نکھارنا ہے ؟
چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ
کہ لوٹنا بھی ہے یا . . . ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟
چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ