چلو عشق نہیں ، چاہنے کی عادت ہے
کیا کریں کی ہمیں دوسرے کی عادت ہے
تو اپنے شیشہ گری کا نا کر ہنر ضائع
میں آئینہ ہوں ، مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
وصال میں بی وہی فاصلے سراب کے ہیں
کے اسکو نیند ، مجھ کو رت جاگے کی عادت ہے
تیرا نصیب ہے اے دل صدا کی محرومی
نا وہ سخی ہے ، نا تجھے مانگنے کی عادت ہے
یہ خود اذیتی کب تک فراز ؟
تو بھی یوز نا کر یاد ، جسے بھولنے کی عادت ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ