سوراغ دے گا کہیں جا کے ماہ و سال میں تو
کہاں رہے گا میرے کوزہ خیال میں تو
پرائی دھوپ سے آنگن کی تیرگی اچھی
الجھ رہا ہے یہ کس روشنی کے جال میں تو
تجھے خبر نہیں اُڑتی ہے خاک جان کیسی
گھرا نہیں کسی اندیشا زوال میں تو
میں دیکھتا ہوں لکیروں کی سرحدوں میں تجھے
لکھا ہوا ہے میرے دست کمال میں تو
تجھے میں مانگ رہا ہوں یہ کس بہانے سے
چھپا ہوا ہے میری خواہش سوال میں تو
کسی کی آنکھ سے خوابوں کی کرچیاں چن کر
اب ایک عمر سے بیٹھا ہے کس ملال میں تو
کہاں گیا تیرے اندر کا خود پرست ظفر
بکھر گیا ہے کسی کے جمال میں تو . . . !
Posted on Nov 25, 2011
سماجی رابطہ