سنو جانا . . !
ہمیں جب سے ملا ہے یہ سندیسہ . .
اب جدائی ہے
ہماری آنکھ کے آنسوں
تڑپتے دل کی نوحہ گری کرتی یہ دھڑکن
بکھرتی سانس کا ریشم
میرے ہاتھوں کی یہ لرزش
میری باتوں کا ٹوٹا پن
میرے ہونٹوں کی نیلی چپ
رگوں میں برف بنتا یہ لہو میرا
میری بکھری ہوئی نیندوں کی کل پونجی
ادھورے خواب سب میرے
( تمہارے لمس کی خواہش )
تمناؤں کے ٹوٹے آئینے سارے
میرے کمرے میں بکھرے ہیں
مجھے ہر پل ادھوری موت دیتے ہیں … . .
مگر … … …
میں کتنی بے - بس ہوں
کے کچھ بھی کر نہیں سکتی
بچھڑنے سے ذرا پہلے
مکمل مر نہیں سکتی . . . !
Posted on Feb 15, 2012
سماجی رابطہ