جمے گی کیسے بساط یاراں کے شیشہ و جام بجھ گئے ہیں
سجے گی کیسے شب نگراں کے دل سر شام بجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے راہ بتاں میں ، چراغ رخ نا شام وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کے سب در و بام بجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں ، مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا
ہر ایک اقرار مٹ گیا ہے ، تمام پیغام بجھ گئے ہیں
قریب آ اے ماہ شب غم ، نظر پے کھلتا نہیں کچھ اس دم
کے دل پے کس کس کا نقش باقی ہے ، کون سے نام بجھ گئے ہیں
بہار اب آ کے کیا کرے گی کے جن سے تھا جشن رنگ و نغمہ
وہ گل سر شاخ جل گئے ہیں ، وہ دل بجھ گئے ہیں
Posted on Nov 02, 2011
سماجی رابطہ