خمار عشق میں خود کو بھلا کے جیتے ہیں
ہر اک سانس میں تجھ کو بسا کے جیتے ہیں
ہے لمحہ لمحہ قضا زندگی یہ تیرے بنا
ستم یہ ہے کہ صدا مسکرا کے جیتے ہیں
ہوا ہے مہکی یا خوشبو کسی خیال کی ہے
یا ذہن و دل میں ہم اسکو بسا کے جیتے ہیں
گناہ کیا کیا دل میں بسا لیا جو تمھیں
یہ درد دل کا گلے سے لگا کے جیتے ہیں
ستایا یادوں نے ایسا کہہ اشک ڈھل ہی پڑے
یہ آنسو شام و سحر ہم بہا کے جیتے ہیں
ملیں گئے روز قیامت میں سب سے ہو کے جدا
سنہرا خواب یہ خود کو دکھا کے جیتے ہیں
Posted on Sep 24, 2012
سماجی رابطہ