خوابوں کا بھرم

خوابوں کا بھرم

اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز ،

سوچتی تھی کے وہ اس وقت کہاں پہ ہوگا ،

میں یہاں ہوں مگر اس کوچہ رنگ و بو میں ،

روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا ،

اور جب اس نے وہاں مجھ کو نہ پایا ہوگا ؟

آپ کو علم ہے ، وہ آج نہیں آئی ہے

میری ہر دوست سے اسنے پوچھا ہوگا

کیوں نہیں آئی وہ ؟ کیا بات ہوئی ہے آخر ،

خود سے اس بات پہ سو بار وہ الجھا ہوگا ،

کل وہ آئے گی تو میں اس سے نہیں بولونگا ،

آپ ہی آپ کئی بار وہ روٹھا ہوگا ،

وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن ،

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے یہ سوچا ہوگا ،

راہدری میں ہرے لان میں پھولوں کے قریب ،

اس نے ہر سمت مجھے آ کے ڈھونڈا ہوگا ،

نام بھولے سے جو میرا کہیں آیا ہوگا ،

غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگا ،

ایک جملے کو کئی بار سنایا ہوگا ،

بات کرتے ہوئے کئی بار وہ بھولا ہوگا ،

یہ جو لڑکی نئی آئی ہے ، کہیں وہ تو نہیں ؟

اس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہوگا ،

جان - ای - محفل ہے مگر آج فقط میرے بغیر ،

ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہوگا ،

کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہوئی ہوگی اسے ،

اس نے بے ساختہ پھر مجھ کو پکارا ہوگا ،

چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پا کر ،

دوستوں کو بھی کسی عذر سے روکا ہوگا ،

یاد کر کے مجھے نم ہو گئی ہونگی پلکیں ،

" آنکھ میں پر گیا کچھ " کہہ کے یہ تالا ہوگا ،

اور گھبرا کر کتابوں میں جو لی ہوگی پناہ ،

ہر سطر میں میرا چہرہ ابھر آیا ہوگا ،

جب ملی ہوگی اسے میری علالت کی خبر ،

اس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہوگا ،

سوچ کر یہ کے بے حال جائے پریشان - ای - دل ،

یونہی بی وجہ کسی شخص کو روکا ہوگا !

اتفاقا مجھے اس شام میری دوست ملی ،

میں نے پوچھا سنو ! آئے تھے وہ ؟ کیسے تھے ؟

مجھ کو پوچھا تھا ؟ مجھے ڈھونڈا تھا چاروں جانب ،

اس نے اک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنس دی ،

اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کے اس سے آگے ،

کیا کہا اس نے مجھے یاد نہیں ہے لیکن ،

اتنا معلوم ہے خوابوں کا بھرم ٹوٹ گیا .

Posted on Feb 16, 2011