کسی خود فریبی کی آڑ میں

کسی خود فریبی کی آڑ میں
بھلا کب تک
شب غم سے بھاگو گے دور موسی کے طور تک
وہ جو چھپ کے بیٹھا ہوا ہے دل کے کواڑ میں
وہی دکھ کہیں نا کہیں سے بجلی گرائے گا
وہ سیاہ رنگ پہاڑ ہے
وہ تو بولتا بھی ہے ، چل بھی سکتا ہے ، بھاگ بھی
دل غمزدہ زرا جاگ بھی
اسے جاگ جاگ کے جھومتے ہوئے دیکھ بھی
بڑی احتیاط سے غور کر
اسے چھاؤں بننے سے روک دے
ابھی ٹوک دے
وہ پہاڑ ہے
کوئی بے قرار سا شجر نہیں
دل غمزدہ یہ بھی یاد رکھ
تیرے پر نہیں . . . !

Posted on Jun 04, 2012