کوئی حرفِ تسلی کوئی دلاسا بھی نہیں ہے

کوئی حرف تسلی کوئی دلاسہ بھی نہیں ہے
اس بھرے شہر میں کوئی اور شناسا بھی نہیں ہے

کبھی لگتا ہے میں اسکی راہوں میں ہوں شامل
کبھی لگتا ہے وہ میرا ذرا بھی نہیں ہے

اسکی طلب میں روز و شب خون کے آنسو پیوں
دل میرا اس قدر پیاسا بھی نہیں ہے

ترک تعلق کر تو دوں لیکن یہ سوچ کر ڈرتا ہوں
کے اسکے سوا زندگی میں کوئی اثاثہ بھی نہیں ہے

میں اس سے دور ہو جاؤں یہ ممکن ہے
مگر اسکے بنا جی پاؤں یہ ممکن بھی نہیں ہے

Posted on Feb 16, 2011