کچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچا تھا
جتنا تجھے چاہا تھا
سوچا تھا تیرے لب پر
کچھ حرف دعاؤں کے
کچھ پھول وفاؤں کے
مہکیں گئے میری خاطر
کچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچا تھا
محسوس یہ ہوتا ہے
دکھ جھیلے تھے جو اب تک
بے نام مسافت میں
لکھنے کی محبت میں
پڑھنے کی ضرورت میں
بے سود ریاضت تھی
بے فیض عبادت تھی
جو خواب بھی تھے دیکھے
ان جاگتی آنکھوں نے
سب خام خیالی تھی
پھر بھی تجھے پانے کی
دل کے کسی گوشے میں
خواہش تو بچا لی تھی
لیکن تجھے پا کر بھی
اور خود کو گوا کر بھی
اس حبس کے موسم کی کھڑکی سے ہوا آئی
نا پھول سے خوشبو کی کوئی بھی سدا آئی
اب نیند ہے آنکھوں میں
نا دل میں وہ پہلی سی تازہ سخن آرائی
نا لفط میرے نکلے
نا حرف و مانی کی دانش میرے کام آئی
ندیدہ رفاقت میں
جتنی بھی اذیت تھی
سب میرے ہی نام آئی
کچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچا تھا
جیسا تجھے چاہا تھا . . . . !
کچھ بھی تو نہیں ویسا
Posted on May 09, 2012
سماجی رابطہ