ماں باپ کا سایہ

واہ ہاتھ جو پونچھتے تھے آنسو میرے
مٹ جاتے تھے غم ، جنکی دعاؤں کے اثر سے
ڈھونڈتے ہیں وہ کندھے ، روتی تھی آنکھ جن پر
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے


انگلی پکڑ کر چلنا ، ہزار خواہشیں کرنا
گزرتی تھی انکی زندگی ، ہمارے ہی ڈگر سے
یاد آتی ہیں وہ باتیں دل روتا ہے آہ اکثر
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے


وہ روٹھنا ہمارا ، وہ آنسو بہانا
پوری ہوتی تھیں خواہشیں ، ہمارے اس اثر سے
باغ آتے ہیں یاد ، چبھتے ہیں کانٹے اکثر
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے


دل توڑنا نا انکا ، نا تکلیف کبھی دینا
نکالنا ہے تمھیں ہی اُنہیں اشکوں کے شہر سے
یتیموں کو دیکھو اُنہیں جا کر سمجھو ، کیا ہوتا ہے تب
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے


وہ دھندلی سی آنکھیں ، وہ معصوم سا چہرہ
یتیموں کو دیکھو گے ، جب ان کے ہی نظر سے
سمجھ جاؤگے آں تم بھی ، کیا ہوتا ہے تب
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے


احساس کی ایک التجا ہے ، ایک بات میری مانو
اپنا آشیانہ بنانا ، ان کے محبتوں کے اثر سے
بہت تکلیف ہوتی ہے ، ، ہوتا ہے کاش ہونٹوں پر اکثر
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے

Posted on Feb 16, 2011