میرے دل میرے مسافر

میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم سادر
کے وطن بدر ہیں ہم تم

دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگار نگار کا
کے سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا

ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھیر کا
سر کوئے نشانیاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا

تمہیں کیا کہوں کے کیا ہی
شب غم بری بلا ہی

ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
جو ایک بر ہوتا

میرے دل میرے مسافر

Posted on Feb 16, 2011