میرے ساحر سے کہہ دینا
اگر صحرا سے گزرو تو میرے ساحر سے کہہ دینا
تمھاری بے سبب دوری مجھے اکثر رلاتی ہے ! !
میرے ساحر سے کہہ دینا
مسافر آج تک چپ ہے
کے اس کے ہاتھ میں تم نے
جو اپنا ہاتھ رکھا تھا
وہ اب تک یاد کرتا ہے
میرے ساحر سے کہہ دینا
کے صدیوں کی مسافت نے
میرے پیروں سے بندھی ہے
تھکن اب کے برس اتنی
کے اپنی ڈوبتی نبضوں سے
میں خائف سا رہتا ہوں
نا جانے کب کہاں پے
عمر کی یہ ڈور کٹ جائے
میں اپنے اور تمھارے بیچ کے ان فاصلوں کو
چند سانسوں کی کمی سے ہار نا جاؤں
بساط جان پر پھیلی دوریاں کے بوجھ کو لے کر
یونہی مر جاؤں
میرے ساحر سے کہہ دینا
کے اس کے عشق کے طلسم سے اب تک وہ نہیں نکلے
کے جن کو اس کی آنکھوں نے فقط اک بار دیکھا تھا
میرے ساحر سے کہہ دینا
کے سارے شہر کو میرے
یونہی پتھر نا رہنے دے
میرے طلسم کدوں میں لوٹ کر آئے
کے وہ پتھر ترستے ہیں
تمھاری چشم کی جنبش
انہیں اک بار پھر کر دے
کسی زی روح کی مانند
میرے ساحر سے کہہ دینا
بچھڑ کر تم جو ملتے تھے
تو یوں محسوس ہوتا تھا
کے جیسے مرگ کے دھندلے کناروں تک پہنچتے ہی
ادھورہ کام کوئی زندگی کو یاد آ جائے
کہو پھر سے چلا آئے
کے اس کے لوٹ آنے سے
ہماری ڈوبتی نبضوں کو پھر سے سانس آ جائے
اگر صحرا سے گزرو تو
میرے ساحر سے کہہ دینا
اگر جنگل سے گزرو تو
میرے جگنوں سے کہہ دینا
تمھاری بے سبب دوری
مجھے اکثر رلاتی ہے
میری شامیں اندھیری ہیں
میری راتیں بھی تیرا ہیں
میرے سب طاق خالی ہیں
میری آنکھیں سوالی ہیں
میرے جگنوں سے کہہ دینا
محبت آج تک چپ ہے
کے اس کے ہاتھ میں اس نے
جو دہکا داغ رکھا تھا
وہ اب تک بات کرتا ہے
میرے جگنوں سے کہہ دینا
میرے جزبوں نے راہوں میں
مہاریں روک رکھی ہیں
انہیں ازن ای سفر دے دو
انہیں دل سے گزرنے دو
میرے جگنوں سے کہہ دینا
میری آنکھوں کو کم کہہ دو
یہ عمروں سے یونہی بے جان ہیں
خوابوں کے مدفن میں
انہیں پھر سے جلا دے دو
میرے جگنوں سے کہہ دینا
غموں نے راگ چھیڑا ہے
اذیت رقص کرتی ہے
میری تنہائی کا چرچہ
دروں ذات پھیلا ہے
میرے جگنوں سے کہہ دینا
فقط اس کی کمی نے
زندگی میں سوگ رکھا ہے
میرے جگنوں سے کہہ دینا
کیوں جنگل میں بھٹکتا ہے
کیوں خود کو روک رکھا ہے
تمھاری بے سبب دوری مجھے اکثر رلاتی ہے
اگر جنگل سے گزرو تو
میرے جگنوں سے کہہ دینا
اگر صحرا سے گزرو تو
میرے ساحر سے کہہ دینا
میرے ساحر سے کہہ دینا . . . ! ! !
میرے ساحر سے کہہ دینا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ