ان راستوں پر چلا کبھی
میرے ساتھ بن کے وہ ہم - سفر
جسے سمجھا شریک رہ - گزر
سر راہ وہ کسی موڑ پر
بدلے گا منزل تھی کیا خبر
مجھے فصیلوں کی فکر نہیں
میرے رو برو میرے خواب ہیں
وہ جو منزلیں ہیں دھواں دھواں
یہ جو بے نشان سے ہیں راستے
میرے واسطے یہ عذاب ہیں
اب اس کے اور میرے درمیان
حائل انا کے مزاج ہیں
اسے پھر سے ملنے کی چاھ میں
اب اور چلنا مُحال ہے
کسے تیرا اتنا خیال ہے ؟
کہاں کون تیرا ہے منتظر ؟
میرے دل کا مجھ سے سوال ہے ؟ …
میری چاہتوں کا یہ حال ہے
جو میرے جنون کا عروج تھا
وہی حوصلوں کا زوال ہے
جو میرے لیے تھا خوشی کبھی
وہ اب باعث ملال ہے
میری بے بسی بھی کمال ہے
نہیں اس سے ملنے کی جستجو
نا ہی واپسی کا خیال ہے … !
Posted on Nov 01, 2011
سماجی رابطہ