محبتوں کے نصیب میں یہ اداسیاں ہیں تو حد ہوئی ہے

محبتوں کےنصیب میں یہ اداسیاں ہیں تو حد ہوئی ہے
لٹی لٹی سی یہ ساحلوں پہ جو کشتیاں ہیں تو حد ہوئی ہے


میں اک زمانے سے اس نگر میں اسیر بن کے رہا ہوں گھر میں
میری ازل سے ہی راہ میں حائل یہ سختیاں ہیں تو حد ہوئی ہے


کھڑے ہوے ہیں سلگتے صحرا میں سبز پتے لئے شجر بھی
ذرا سی بارش سے جل رہی سب یہ بستیاں ہیں تو حد ہوئی ہے


اے دل تجھے کیا گماں ہوا ہے وصال کیسا ملال سوچو
خزاں کی رت میں تیرے صحن میں جو مستیاں ہیں تو حد ہوئی ہے


جنھیں زیاں کا سبب کہا ہے عقیل ان سے امید کیسی
تیرے وہم میں ابھی تلک سب یہ ہستیاں ہیں تو حد ہوئی ہے

Posted on Jan 19, 2013