مجھ سے بچھڑ کے مجھ کو رلا کر اداس تھا

مجھ سے بچھڑ کے مجھ کو رلا کر اداس تھا
میری طرح وہ خود کو جلا کر اداس تھا ،

ایسی عجیب درد کے پہرے تھے چار سو
اب کے وہ میرے شہر میں آ کر اداس تھا ،

مجھ کو بھی اس کی یاد ستاتی رہی بہت
وہ بھی دیار غیر میں جا کر اداس تھا ،

میرے علاوہ بھی ہے کوئی اس کا شہر میں
اتنی سی بات مجھ کو بتا کر اداس تھا ،

اعتبار اس کو اداس کر گئی بیتی دنوں کی یاد
گزری رفاقتوں کو گنوا کر اداس تھا . . . !

Posted on Jan 09, 2012