بات دن کی نہیں مجھے رات سے در لگتا ہے
گھر کچہ ہے میرا ، مجھے برسات سے ڈر لگتا ہے ،
تیرے تحفے نے دیے مجھے خون کے آنْسُو
زندگی اب تیری ہر سوغات سے ڈر لگتا ہے ،
چھوڑو پیار کی باتیں کوئی اور بات کرو
اب تو پیار کی ہر بات سے ڈر لگتا ہے ،
میری خاطر تو کہیں بدنام نا ہو جائے
اس لیے تیری ہر ملاقات سے ڈر لگتا ہے ،
اپنوں میں رہ کر کچھ ایسے زخم کھائے
ہمیں اے دوست اپنی ذات سے ڈر لگتا ہے !
Posted on Oct 15, 2012
سماجی رابطہ