مشکلوں سے اِسے سنبھالا ہے

مشکلوں سے اِسے سنبھالا ہے
اِک تیرا غم جو ہم نے پالا ہے

عہد و پیمان توڑ کر سارے
مُجھ کو اُلجھن میں تُو نے ڈالا ہے

مِل گئیں تلخیاں زمانے کی
فِکرِ دُنیا نے روند ڈالا ہے

زندگی کھو گئی اندھیروں میں
کوں جانے کہاں اُجالا ہے

سب سے ملتا ہے مُسکُرا کر تُو
تیرا انداز ہی نرالا ہے

ہونٹ میں نے تو سی لیے ناصر
راز اپنوں نے ہی اُچھالا ہے

Posted on Jan 10, 2013