پیاس کے عالم میں کیا بولوں مجھ کو کیسا لگتا ہے

پیاس کے عالم میں کیا بولوں مجھ کو کیسا لگتا ہے ،
ایک قطرہ بھی اس دم عاطف دریا جیسا لگتا ہے ،

سوکھے پتوں کی آہٹ اب بھی مجھ کو چونکاتی ہے ،
یاد ہے مجھ کو ان پر چلنا تم کو اچھا لگتا ہے ،

میں تو اپنے آپ کو اکثر یہ سمجھاتا رہتا ہوں ،
تو سب کچھ ہے پھر بھی آخر تو میرا کیا لگتا ہے ،

اتنی مدت سے آنکھوں میں خواب نہیں اترا کوئی ،
کے اب سپنا بھی دیکھوں تو مجھ کو سپنا لگتا ہے ،

ہونٹوں کی مسکان سے تو نے درد چھپایا ہے لیکن ،
آنکھوں کی سرخی سے تو بھی دل سے رویا لگتا ہے ،

اپنی آنکھوں میں خوابوں کے لوگ سجائے بیٹھے ہیں ،
خوابوں کا سوداگر پھر سے شہر میں آیا لگتا ہے ،

دل کے بہلانے کو سب سے کہتا ہوں تنہا خوش ہوں
سچ پوچھو تو تنہا رہنا کس کو اچھا لگتا ہے ،

پلکوں کی باڑوں پہ جو تم اشک سجائے بیٹھے ہو ،
دل میں یادوں کا پھر کوئی جھونکا آیا لگتا ہے ،

جیسے بھیڑ میں بچہ کوئی گم ہو جاتا ہے عاطف ،
تم جب ساتھ نہیں ہوتے ہو مجھ کو ایسا لگتا ہے . . . !

Posted on Feb 24, 2012