ایک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرم اسیری کی سزا دی جائے
اسکی خواہش ہے کے اب لوگ نا روئیں اور حسین
بے حسی وقت کی آواز بنا دی جائے
دشت نا دیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے
صرف جلنا ہی نہیں ہم کو بھڑکنا بھی تو ہے
عشق کی آگ کو لازم ہے ہوا دی جائے
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور میری شب سے ملا دی جائے
اور ایک تازہ ستم اس نے کیا ایجاد
اسکو اس بار ذرا کھل کے دعا دی جائے . . .
Posted on Jul 25, 2011
سماجی رابطہ