ستارہ اپنی بھی تابندگی نا دیکھ سکا
وہ ڈھونڈتی کے یہ منظر کوئی نا دیکھ سکا
تلاش کرتے ہوئے انگلیاں جلا ڈالیں
وہ تیرگی تھی کہہ میں شمع بھی نا دیکھ سکا
ملا تھا شام مجھے اک بجھا ہوا سورج
میں اس کے بعد پھر روشنی نا دیکھ سکا
جو ربط باقی تھا سب قطعہ کر لیا اس نے
وہ مہرباں میری بے چارگی نا دیکھ سکا
نگاہ ویسے تو بام فلک کو چھو آئی
مگر جس زمین پے کھڑا تھا وہی نا دیکھ سکا
وہی ہے آئینہ خانہ وہی ہیں تصویریں
میں عمر بھر کوئی صورت نئی نا دیکھ سکا
تمام شہر میں وہ دیدہ ور ہوا مشہور
وہ اپنی ناک سے آگے کبھی نا دیکھ سکا
Posted on Aug 29, 2011
سماجی رابطہ