تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں
تجھ سے خوشبو کے مراسم تجھے کیسے کہیں
میری سوچوں کا اُفق تیری محبت کا فُسوں
میرے جذبوں کا دل تیری عنایت کی نظر
کیسے خوابوں کے جزیروں کو ہم تاراج کریں
تجھ کو بُھولیں کہ تجھے یاد کریں
اب کوئی اور نہیں میری تمنا کا دل
اب تو باقی ہی نہیں کچھ
جسے برباد کریں
تیری تقسیم کسی طور ہمیں منظور نہ تھی
پھر سرِ بزم جو آئے تو تہی داماں آئے
چُن لیا دردِ مسیحائی
تیری دلدار نگاہی کے عوض
ہم نے جی ہار دیئے
لُٹ بھی گئے
کیسےممکن ہے بھلا
خود کو تیرے سحر سے آزاد کریں
تجھ کو بُھولیں کہ تجھے یاد کریں
اس قدر سہل نہیں میری چاہت کا سفر
ہم نے کانٹے بھی چُنے روح کے آزار بھی سہے
ہم سے جذبوں کی شرح نہ ہو سکی کیا کرتے
بس تیری جیت کی خواہش نے کیا ہم کو نِڈھال
اب اسی سوچ میں گزریں گے ماہ و سال میرے
تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں
تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ