تمھارے خط میں نیا ایک سلام کس کا تھا
نا تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
وفا کرینگے نبھائینگے بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رہا نا دل میں وہ بے - درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نا پوچھ پچھ تھی کسی کی نا آؤ بھگت
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں
خیال میرے دل کو صبح و شام کس کا تھا
ہر ایک سے کہتے ہیں کیا داغ بیوفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا . . . !
Posted on Apr 13, 2012
سماجی رابطہ