وہ آخری لمحوں میں مجھے مانگ رہا ہے
یہ وقت ہے ایسا کے گزر کر نہیں سکتے
خود ہاتھ سے اپنے اسے کھونا ہی پڑے گا
یہ ضبط بھی کرنا ہے مگر کر نہیں سکتے
یوں اپنی نگاہوں کو چرا لیتے ہیں تجھ سے
کے دل کے ارادوں کی خبر کر نہیں سکتے
تم خواب جلاتے رہے ہم آج تک چپ تھے
اب دل کے یوں جلنے پر صبر کر نہیں سکتے
یہ آنکھ اندھیروں میں ہوئی پیاس کا صحرا
اس نور کے دریا پر نظر کر نہیں سکتے
Posted on Jul 21, 2012
سماجی رابطہ