یہی میرا حوالہ ہے

کسی نے سچ کہا ہے یہ
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
مگر میری محبت تو
کہانی ہی کہانی ہے
کوئی راجہ نا رانی ہے
محبت کی کہانی تو
مسافت ہی مسافت ہے
ضرورت کی مسافت میں
مسافر واپسی کے سارے امکان پاس رکھتا ہے
محبت کی مسافت میں
مسافر کے پلٹتے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
وہ کشتیاں اپنی
جلا دیتے ہیں ساحل پر
کے نا - امید ہونے پر
پلٹنا بھی اگر چاہیں
تو واپس جا نہیں پائیں
وہیں غرقاب ہو جائیں
محبت کی کہانی میں مسافت کی بشارت تھی
مسافت طے ہوئی تو پھر
جلا ڈالی تھیں میں نے بھی
وہیں سب کشتیاں اپنی
جہاں پہلا پڑاؤ تھا
شکستہ جسم تھا میرا
میرے سینے میں گھاؤ تھا
بھڑکتا اک الاؤ تھا
کسی چاھ میں سب کچھ لٹا کے
آ گیا تھا میں
کہاں پر آ گیا تھا میں
جہاں پہچان کا اپنی
حوالہ ہی نا ملتا تھا
حوداث کے تھپیڑوں سے
سنبھالا ہی نا ملتا تھا
اجالوں کی تمنا میں
مگر مجھ کو کسی جانب
اجالا ہی نا ملتا تھا
شب تیرا سے نکلا تھا
مگر ہمت نہیں ہاری
یہاں تک ایسے ہوں میں
جہاں ہر سو اجالا ہے
جہاں پہچان ہے اپنی
وطن میرا حوالہ ہے
مجھے اس نے سنبھالا ہے
اسی میں نے سنبھالا ہے
یہی میرا حوالہ ہے

Posted on Aug 24, 2012