یونہی شاید
وہ منزل ہم کو مل جائے
یونہی شاید
زمیں کے بے کراں دشت رواں پر
چلتے چلتے ہم ٹھہر جائیں
یونہی شاید
وہ منزل ، جس کو ہم پیچھے، بہت پیچھے کہیں
اس خاک وحشت ناک کے چکر میں
اپنے پاؤں کے اڑتے بگولوں میں سسکتا چھوڑ آئے ہیں
ہوا چلتی رہے تو شاید
اس منزل کا لمس عنبریں ہم تک پہنچ جائے
ہوا چلتی ہے، چلنے دو
سفر کی دھول اڑتی ہے تو اڑنے دو
سفر کی دھول اڑتی ہے تو کتنے ان کہے شاداب موسم
آنکھ کی دہلیز پرآ کر ٹھہرتے ہیں
ہوا چلتی ہے تو کتنے پرانے منظروں کی یاد
خواب آثار رخساروں پہ گرتی ہے
سر شام سفر ڈھلتے ہوئے خورشید کے رنگیں کٹورے سے
سنہری دھوپ دیواروں پہ گرتی ہے
سفر تو پھر سفر ہے
اور اس کی وحشتیں بڑھتی ہی رہتی ہیں
کہاں جائیں، کہاں ٹھہریں
ہمیں چلنا تو ہے لیکن، کہیں آخر ٹھہرنا ہے
ٹھہرنے سے ذرا پہلے
حد آفاق تک اک خواب کا منظر اترنے دو
سفر کی دھول اڑنے دو
ہوا چلتی ہے، چلنے دو
ہوا زنجیر مت کرنا
ہوا زنجیر ہو جائے تو پھر کچھ بھی نہیں رہتا
یونہی شاید
Posted on Nov 12, 2012
سماجی رابطہ