زندگی تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے دامن میں صلواتوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک عمر لگی تراشنے میں خود کو مگر
ملا ہاتھوں کو زخموں کے سوا کچھ بھی نہیں
بظاہر دل تو ہر ایک بات پر دھڑکتا ہے
ورنہ اس میں تیری مورت کے سوا کچھ بھی نہیں
راس آیا ہی نہیں حقیقت کے اُجالوں کا سفر
اور تخیل میں بھی اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
میں نے صحرا ذیست میں برسوں خاک چھانی ہے
رہ گیا جھولی میں وحشتوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سلسلے تیری ملاقاتوں کے ، تیرے خیال کے
اور آنکھوں میں رتجگوں کے سوا کچھ بھی نہیں
کبھی جو دیکھتا ہوں دیوار و در اپنے مکان کے
نظر آتا ہے مجھے پتھروں کے سوا کچھ بھی نہیں
کیا ڈھونڈتے ہو وارث ~ ، خزاں کی مانند وجود میں تم
اس شجر میں سوکھے پتوں کے سوا کچھ بھی نہیں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ