اب وہی حرف جنون سب کی زبان ٹھہری ہے
اب وہی حرف جنون سب کی زبان ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمن دین راحت جان ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کے پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگوں آج سر کوئے بتاں ٹھہری ہے
ہے وہی عارض لیلی وہی شیریں کا دھان
نگاہ شوق گھڑی بھر کو یہاں ٹھہری ہے
وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری ہے
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں گزاری ہے
بکھری ایک بار تو ہاتھ آئی کب موج شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پے فگان ٹھہری ہے
دست صیاد بھی عاجز ہے کف گلچیں بھی
بو گل ٹھہری نا بلبل کی زباں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرز فگان کی ہے قفس میں ایجاد
" فیض " گلشن میں وہ طرز بیان ٹھہری ہے
اب وہی حرف جنون سب کی زبان ٹھہری ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ