بھول جا
کہاں آ کے رکنے تھے راستے ،
کہاں موڑ تھا ، اُسے بھول جا ،
جو مل گیا اُسے یاد رکھ ،
جو نہیں ملا اُسے بھول جا ،
وہ تیرے نصیب کی بارشیں ،
کسی اور چھت پے برس گئیں ،
دل بےخبر میری بات سن ،
اُسے بھول جا ، اُسے بھول جا ،
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ،
تیری آس تیرے گمان میں ،
صباء کہہ گئی میرے کان میں ،
میرے پاس آ اُسے بھول جا
کسی کی آنکھ میں نہیں اشک غم ،
تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم ،
تجھے زندگی نے بھلا دیا ،
تو بھی مسکرا اُسے بھول جا
نا وہ آنکھ ہی تیری آنکھ تھی ،
نا وہ خواب ہی تیرا خواب تھا ،
دل منتظر تو یہ کس لیے تیرا جاگنا ،
اُسے بھول جا
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ،
اُسے دیکھ اس پے یقین نا کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سر آئینہ ، اُسے بھول جا
جو بساط جان ہی اُلٹ گیا ،
وہ جو راستے میں پلٹ گیا
اُسے روکنے سے حصول کیا ،
اُسے مت بلا اُسے بھول جا
بھول جا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ