غزل

غزل

یہ عشق وہ کرے جسے کچھ کام نہیں ہو
الزام ہی الزام ہے آرام نہیں ہے

اس عشق کے دریا میں ڈوبے ہیں ہم اے دوست
اس بحر کی موجوں میں گو طوفان نہیں ہے

کری ہم نے بہت پوجا اسکی مگر ہائے
پتھر ہی رہا وہ کوئی انسان نہیں ہے

جس دل میں نا ہو درد دوسروں کا بھی
وہ شخص سبھی کچھ ہے انسان نہیں ہے

کہتے تھے کبھی ہم بھی یہ عشق ہے حسین
اب ہو جو گیا ہے تو بالکل آرام نہیں ہے

جی کرتا ہے میرا بھی ہنسوں اور گاؤں بھی
نفیس تیرے دل مضطرب سے یہ امکان نہیں ہے

Posted on Feb 16, 2011

غزل

غزل

ملتی ہے نظر روز ہی گو بات نہیں ہوتی ہے
یعنی ملتے تو ہیں مگر ملاقات نہیں ہوتی ہے

سدا غم ہی ہوتے ہیں اس عشق میں جاناں
ہر عاشق پے حسن کی التفات نہیں ہوتی ہے

دشمن تو ہے دشمن ضرر دیگا ہی
دوستو کی چالو سی کوئی گھات نہیں ہوتی ہے

دیدار نا ہو جو انکا طبیعت نہیں سنبھلتی
آفَت ہے یہ بڑی اس سے بڑھ کرا آفات نہیں ہوتی

بانٹو تم نفیس احمد یونہی پیار کا نذرانہ
تحفہ نہیں کچھ ایسا ایسی کوئی سوغات نہیں ہوتی

ریٹن بائے

نفیس احمد خان نفیس

Posted on Feb 16, 2011