کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی
انہیں کے دم سے ہے میخانۂ فرنگ آباد
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت! وہ اندیشہ و نظر کا فساد
فقیہہِ شہر کی تحقیر! کیا مجال میری!
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرت پرویز
خدا کی دین ہے سرمایۂ غمِ فرہاد
کیے ہیں فاش، رموزِ قلندری میں نے
کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد!
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہوتو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
Posted on May 09, 2011
سماجی رابطہ