خزاں کے موسم سے

خزاں کے موسم سے

خزاں کے موسم سے گلاب مانگ رہا ہے
پھر اپنے لیے کوئی عذاب مانگ رہا ہے

جانِ مانگتا تو میں ذرا تغافل نا کرتا
مگر وہ مجھ سے میرے خواب مانگ رہا ہے

عطا کر کے میرے زیست کو ہجر کی اذیتیں
اور مجھ سے وصال رت کے حساب مانگ رہا ہے

خطائیں کرنا ہی رہا مشغلہ اس کا
میں کیا دوں صلہ اسے وہ ثواب مانگ رہا ہے

اپنی سمجھ میں اس کی گفتگو بھی نہیں آتی
اور وہ ان کہے سوالوں کے جواب مانگ رہا ہے

مجھ کو اپنے وجود پہ بھی دسترس نہیں حاصل
اور دل نادان ہے مہتاب مانگ رہا ہے

کوئی زندگی سے گھبرا گیا اس قدر
کشتی کا مسافر ہے اور گرداب مانگ رہا ہے

Posted on Feb 16, 2011