وہ حرفِ راز کو مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں
حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی
خود کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں
عجب مزا ہے مجھے لذتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں
ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیٔ شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں!
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں گردوں!
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں!
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں!
اسی کے فیض سے میری نگاہیں روشن
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں!
Posted on May 09, 2011
سماجی رابطہ