تیرے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے
مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے
تمام شب جہاں جلتا ہے اک اداس دیا
ہوا کی راہ میں اک ایسا گھر بھی آتا ہے
وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاھے گا ، چھوڑ جائے گا
مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے
اجاڑ بن میں اترتا ہے اک جگنو بھی
ہوا کے ساتھ کوئی ہمسفر بھی آتا ہے
وفا کی کون سی منزل پہ اسنے چھوڑا تھا
کے وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
جہاں لہو کے سمندر کی حد ٹھہرتی ہے
وہیں جزیرہ لال و گہار بھی آتا ہے
چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا
تو زیر بحث مقام بشر بھی آتا ہے
کبھی کبھی مجھے ملنے بلندیوں سے کوئی
شعاع صبح کی صورت اُتَر بھی آتا ہے
اسی لیے میں کسی شب نا سو سکا محسن
وہ مہتاب کبھی بام پر بھی آتا ہے
Posted on Dec 03, 2012
سماجی رابطہ