تتلی
آ جانے سے باغ میں پریشان ہے تتلی
اک گلاب کو ڈھونڈتی ہے جس کی پرستار ہے تتلی
صدیوں سے مسافتوں میں دیدار کو ترسی ہے
پلکوں کے جھرونکوں میں ہر دم دعا گو ہے تتلی
یکا یک آندھیوں میں کھو گئے
زروں میں بٹ رہی ہے کتنی بے ضرر ہے تتلی
ہر مسیحا ریت کی ڈور لیے ہوئے ہے
تھام کے ڈور بھی الجھن کا شکار ہے تتلی
خود کی تلاشی ہوئی پگڈنڈی میں قید ہے
ظالم ہاتھوں سے " پھر " سے اُڑ جانے کو بے قرار ہے تتلی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ