تمہیں ضد ہے کے میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کے تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
نہیں یہ جانتے دونوں
محبت کب بھلا محتاج ہے لفظوں کی
محبت تو ہماری دھڑکنوں کی ساز میں شامل
سریلے گیت کی مانند
محبت یاد کی دیوی
جو تنہا رات کو اکثر اُتَر آتی ہے آنکھوں میں
محبت مسکراہٹ ہے حسین نازک سے ہونٹوں میں
محبت صندلی ہاتھوں کی نازک لرزش میں ہے
محبت سوچ کی گہرائیوں سے پھوٹتی خوشبو
ہمیشہ ساتھ رہتی ہے
محبت آنکھ میں پلتا وہ پر اصرار جذبہ ہے
جسے اب تک نہیں کوئی سمجھ پایا
نا اس کی کوئی صورت ہے
نا اس کا کوئی پیمانہ
ڈھکے الفاظ میں اس کا بہت اظہار ہوتا ہے
کچھ ایسے ہے کے جیسے آب
تھا - ہے - دل سے تو ہم دونوں بہت اقرار کرتے ہیں
مگر پھر بھی نا جانے کیوں
تمہیں ضد ہے کے میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کے تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے . . . !
تمہیں ضد ہے کے میں کہہ دوں
Posted on Apr 21, 2012
سماجی رابطہ