زخم بن جاتے ہے جملے جو اُتَر جاتے ہے دل میں

زخم بن جاتے ہے جملے جو اُتَر جاتے ہے دل میں

زخم بن جاتے ہے جملے جو اُتَر جاتے ہے دل میں
ان کا سینے میں نشہ ہو یہ ضروری تو نہیں

اشکوں کو پیا ، ہونٹوں کو سیا ہر زخم چھپایا سینے کا
اس جرم میں ظالم دنیا نے حق چھین لیا ہے جینے کا

جسے ذخمی دل ہم دکھانے گئے
وہی ہاتھ میں لے کے پتھر اٹھا

ہم تو سمجھے تھے کی ایک زخم ہے بھر جائیگا
کیا خبر تھی کی رگ جاں میں اُتَر جائیگا

خلوص دل نا ہو شامل تو بندگی کیا ہے
زمانہ کھیل سمجھتا ہے سر جھکانے کو

بھر نا آئے جو کسی کی بے کسی پر اے حفیظ
اس کو کیسے آنکھ کہہ دیں ، اس کو کیسے دل کہیں

تیری بندوق کیا مارے گی مجھ کو
کہی سے تیگ لا کردار والی

میں کیسے چکاؤنگا احسان کا وہ بدلا
میت کو میری کندھا احباب جو کل دینگے

Posted on Feb 16, 2011