آئینہ کیوں نا دوں کی تماشہ کہیں جسے
آئینہ کیوں نا دوں کی تماشہ کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کی تجھ سا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تیری بزم - ای - خیال میں
گلداستاں - ای - نگاہ سویدا کہیں جسے
پھینکا ہے کس نے گوش ای محبت میں اے خدا
افسوں - ای - انتظار تمنا کہیں جسے
سر پر ہجوم - ای - درد - ای - غریبی سے ڈالے
وہ ایک مشت - ای - خاک کی سہارہ کہیں جسے
ہے چشم - ای - تر میں حسرت - ای - دیدار سے نہاں
شوق - ای - انان گسیختا دریا کہیں جسے
داراکار ہے شگفتان - ای - گل ہائے عیش کو
سب _ ھ - ای - بہار پنبا - ای - مینا کہیں جسے
" غالب " برا نا مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کی سب اچھا کہیں جسے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ